علی ھجویری گیارہویں صدی عیسوی کے فارس سے تعلق رکھنے والے ایک صوفی عالم تھے، اور پورے جنوبی ایشیاء میں اسلام کو پھیلانے والے ایک محسن کے طور پر معروف ہیں۔ |
آج، ان کا مزار لاہور کی سب سے بڑی زیارت گاہ ہے، اور مسلمان زائرین کی ایک بہت عام مقدس زیارت گاہ ہے۔ |
ایک سنگ مرمر کا کشادہ صحن، ایک مسجد، اور کئی ایک دیگر عمارتیں درگاہ کو گھیرے ہوئے ہیں، جو کہ پاکستان اور پورے مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ ممتاز درگاہوں میں سے ایک ہے۔ |
ان کی درگاہ کے قریب واقع مسجد ان کی تعمیر کردہ ہے۔ |
ھجویری کی ولادت تقریباً 990 صدی عیسوی کے قریب، غزنوی دورِ حکومت میں موجودہ افغانستان میں ہوئی۔ |
آپ نے تصوف کی تعلیم حاصل کی اور ایک مسافر عالم بن گئے اور بحر کیسپین اور دریائے سندھ کے اطراف کئی ایک مقامات کا دورہ کیا اور اپنے وقت کے سینکڑوں صوفیوں سے ملاقات کی، جن کی اکثریت کا شمار اس وقت کے ممتاز صوفیوں میں ہوتا تها۔ |
اپنے چالیس سے زائد برسوں کے سفر کے دوران ان کی دورہ کی ہوئی جگہوں میں دمشق، شام، بایزید بسطامی کی درگاہ وغیرہ شامل ہیں۔ |
آپ نے اپنے آپ کو برَِصغیر کے کئی ایک معروف ترین صوفیوں کے اتحاد میں شمار کیا۔ |
ھجویری نے کئی صوفی مسلمانوں کے لیے ایک اہم شفیع کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں۔ |
مزید یہ کہ آپ نے فارس اور خراسان کے تصوف کو ہندوستانی برصغیر کے تصوف کے ساتھ جوڑنے کا کام انجام دیا۔ |
آپ اصولی طور پر سنّی حنفی مسلک سے وابستہ تھے، اگرچہ آپ کے نظریات کو فنا کے صوفی نظریے سے جوڑا جاتا ہے۔ |
آپ نے اس عقیدے کے خلاف اپنی آواز بلند کی جس کے تحت یہ کہا جاتا ہے کہ خدا انسانی شخصیات کے ساتھ مل سکتا ہے۔ |
اس کے بجائے، آپ نے فنا کا جلنے کے ساتھ اس طرح موازنہ کیا کہ آگ جیسی خصوصیات حاصل کی جاتی ہیں، جبکہ شخص اپنی انفرادی شخصیت کو باقی رکھتا ہے۔ |
Comments
Hide