استاد سلامت علی خان ولایت علی خان کے بیٹے تھے اور کلاسیکی موسیقی کی میراث رکھنے والے پاکستانی گلوکاروں کے طویل نسب سے تعلق رکھتے تھے۔ |
جب وہ صرف پانچ سال کے تھے تو انہوں نے اپنے والد کی شاگردی میں ہی کلاسیکی موسیقار بننے کی تربیت شروع کر دی تھی۔ |
ان کے والد نے خیال صنفِ موسیقی میں ان کی فطری دلچسپی کو محسوس کیا اور انہیں اس خصوصی شعبے پر توجہ دینے کی نصیحت کی۔ |
جب وہ سات سال کے ہوئے تو انہوں نے ایک تقریب میں گیت "میاں کی ٹوڈی" گایا جہاں پر استاد رجب علی خان اور استاد بڑے غلام علی خان نے ان کی صلاحیت پر دھیان دیا اور اپنی طرف سے حوصلہ افزائی کی۔ |
آپ کا تعلق شام چوراسی گھرانے سے تھا اور 1956 اور 1966 کے درمیان انہوں نے کلکتہ کے سالانہ میوزک میلے میں حصہ لیا جہاں ان کا نام بہت احترام سے لیا گیا اور انہوں نے بہت ایوارڈز وصول کیے۔ |
برصغیر ہندوستان میں کلاسیکی موسیقی کے لیجنڈ کے طور پر وہ اپنے تمام تر فنّی مظاہروں میں اپنی شاندار ادائیگی کے ذریعے راگوں کی حقیقی روح پر قابو رکھنے کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ |
خان کلاسیکی موسیقی کو فروغ دینے اور مشہور کرنے کے لیے بھی جانے جاتے تھے۔ |
انہیں کچھ نایاب اندازوں بشمول سدھرا، ٹپّا، گیت اور لکشن کو زندہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ |
ان کے ایک ہزار سے زائد چاہنے والے ہیں جنہوں نے اس وقت سے کلاسیکی موسیقی کی اصناف کو منتخب کیا ہوا ہے جب سے ان کے بارے میں یہ مشہور ہوا کہ وہ ان کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ |
خان کو تمغۂِ حسنِ کارکردگی، جو پاکستانی صدر دیتے ہیں اور پاکستان کا اعلٰی ترین ایوارڈ ہے جو پرفارمنگ آرٹسٹس پاکستان میں حاصل کر سکتے ہیں، بھی ملا۔ |
انہوں نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر یونیسکو اور پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس، جو ان کے انداز میں فنکاروں کے کام کی ڈاکیومینٹنگ کر رہے ہیں، کے لیے ریکارڈنگز پر بھی کام کیا۔ |
ان کی وفات 2001 میں ہوئی۔ |
Comments
Hide