Dialogue

Vocabulary (Review)

Learn New Words FAST with this Lesson’s Vocab Review List

Get this lesson’s key vocab, their translations and pronunciations. Sign up for your Free Lifetime Account Now and get 7 Days of Premium Access including this feature.

Or sign up using Facebook
Already a Member?

Lesson Notes

Unlock In-Depth Explanations & Exclusive Takeaways with Printable Lesson Notes

Unlock Lesson Notes and Transcripts for every single lesson. Sign Up for a Free Lifetime Account and Get 7 Days of Premium Access.

Or sign up using Facebook
Already a Member?

Lesson Transcript

جھیل سیف الملوک پاکستان کے ناران سے قریب وادی کاغان کے شمالی حصہ میں واقع ہے۔
یہ خیبر پختونخوا صوبہ میں ہے اور سمندر کی سطح سے 10,000 فٹ سے زیادہ بلندی پر واقع ہے۔
یہ پاکستان کی سب سے اونچی جھیلوں میں سے ایک ہے اور درختوں کی قطاروں سے بہت اوپر واقع ہے۔
ہزاروں سال میں برف کے ملبوں نے جھیل کی شکیل اختیار کرلی اور اس سے ہوکر گزرنے والی ندی کے بہاؤ کو روک دیا۔
اس کا آغاز پلیستوسین دور (برفانی دور) میں وادی کاغان کی تشکیل سے ہوا جب علاقہ انتہائی سرد تھا اور گلیشیئر (برف کی چٹان) بنا۔
جب گزرتے ہوئے برسوں میں وہاں درجہ حرارت میں اضافہ ہوا، تو برف کی چٹانوں میں کمی آئی، ایک گہرا دباؤ باقی رہ گیا، اور پگھلنے والی برف کی چٹانوں سے نکلنے والے پانی نے جھیل سیف الملوک کی شکل اختیار کرلی۔
جھیل سیف الملوک ماحولیات کے حساب سے بہت ہی مختلف ہے اور مختلف اقسام کے نیلے- سبز پودے اور 26 قسم کے عروقی پودوں کا ماخذ ہے۔
پیدل چلنے والے افراد ہنس گلی کے راستہ سے ہوکر کئی دنوں کا سفر کر کے جھیل تک پہنچتے ہیں، جو قدرت کا شاندار نظارہ پیش کرتی ہے۔
جھیل میں برفانی طوفان کے ساتھ سردی بہت شدید ہوجاتی ہے، کم دکھائی دیتا ہے، اور درجہ حرارت صفر سے نیچے چلا جاتا ہے، لیکن قدرت سے محبت کرنے والے پہاڑ کی چوٹی تک سفر کرتے ہیں جہاں پر جھیل موجود ہے۔
جنگلی جانور بھی اس زمین کی سیر کرتے ہیں، اور پیدل چلنے والے لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرتے ہیں، اگرچہ یہ چیز عام طور پر انہیں واپس موڑنے کے لئے کافی نہیں ہوتی۔
مقامی افراد اکثر پہاڑ کے نصف راستے تک جاتے ہیں اور پھر ایک مخصوص جگہ سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔
اس کی وجہ سے راستہ غائب ہو جاتا ہے، اور پیدل چلنے والوں کو کسی نقطہ حوالہ کے بغیر ہی اپنا راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔

Comments

Hide